بارش تھی، ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام
میں نے کہا تھا، آؤ یونہی بھیگتے چلیںاِن راستوں میں دیر تلک گھومتے رہیں
میری کمر میں ہاتھ یہ پھولوں سا ڈال کرکاندھے پہ میرے رکھے رہو یونہی اپنا سر
ہاتھوں کو میں کبھی،کبھی بالوں کو چوم لوںدیکھو میری طرف تو میں آنکھوں کو چوم لوں
پانی کے یہ جو پھول ہیں رُخ پر کھلے ہوئےاِن میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے
ہونٹ سے اِن کو چُنتے رہیں خوش دِلی کے ساتھتارے ہمیں تلاش کریں، چاندنی کے ساتھ
یونہی کسی درخت کے نیچے کھڑے رہیںبارش کے دیر بعد بھی لپٹے کھڑے رہیں
تم نے کہا تھا “آؤ چلیں، رات آ گئیدل جس سے ڈر رہا تھا، وہی بات آ گئی
بیتے سمے کی یاد ہی رستوں میں رہ نہ جائےیہ دل کہیں وصال کی بارش میں بہہ نہ جائے
کچھ دیر ایک چُپ سی رہی درمیاں میںگرہیں سی جیسے پڑنے لگی ہوں زباں میں
یک دم گِرا تھا پھول کوئی شاخسار سےدیکھا تھا تم نے میری طرف اضطرار سے
بارش میں بھیگتے ہوئے جھونکے ہوا کے تھےوہ چند بے گمان سے لمحے، بلا کے تھے
نشہ سا ایک چاروں طرف پھیلتا گیاپھر اس کے بعد میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا
No comments:
Post a Comment