چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

ہے ابھی لمس کا احساس مرے ہونٹوں پر
ثبت پھیلی ہوئی بانہوں پہ حرارت اس کی

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اس کی

وہ کبھی آنکھ بھی جھپکے تو لرز جاتا ہوں
مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی

وہ کہیں جان نہ لے ریت کا ٹیلہ ہوں میں
میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی

بے طلب جینا بھی شہزاد طلب ہے اس کی
زندہ رہنے کی تمنا بھی شرارت اس کی