شام غربت یہ بتا مجھ کو سحر دور ہے کتنی
میری زینب ہے کہاں اور وہ رنجور ہے کتنی
آج شہزادیاں، پابستہٴ زنجیر ستم ہیں
آزمائش تجھے قدرت بتا منظور ہے کتنی
میں نبی زادی ہوں سن لے مجھے دربار یزید
آج بھی دیکھ لے طاقت تیری معذور ہے کتنی
اے بہن حوصلہ تیرا، تیرے بھائی کی طرح ہے
بنت حیدر کو سمجھتے تھے وہ مجبور ہے کتنی
نام لیوا بھی نہیں کوئی تیرا آج یزید
داستاں دیکھ لے شبیر کی مشہور ہے کتنی
گھپ اندھیرے میں یہ کیا جل گئے ایماں کے چراغ
داستاں حق کے شہیدوں سے یہ پرنور ہے کتنی
یہ فسانہ نہیں مطرب جو رقم ہو جائے
کربلا جانتا ہوں رنج سے تو چور ہے کتنی
No comments:
Post a Comment