وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہ ناز بے نیازی وہی شان خسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق وصل کے
میرا عشق بھی کہانی تیرا حسن بھی فسانہ
میری زندگی تو گزری تیرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
تیری دوری و حضوری کا ہے یہ عجیب عالم
ابھی زندگی حقیقت ابھی زندگی فسانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
تیرا درد درد تنہا، میرا غم غم زمانہ
تیرے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
تجھے اے جگر مبارک یہ شکست فاتحانہ
No comments:
Post a Comment