تنہا رہنا سیکھ رہا ہوں
مر کے جینا سیکھ رہا ہوں
مانگ کے پانا سیکھ لیا ہے
پا کے کھونا سیکھ رہا ہوں
صبر کو زادِ راہ بنا کر
کانچ پہ چلنا سیکھ رہا ہوں
پھرتے پھرتے صحرا صحرا
پیاس کو پینا سیکھ رہا ہوں
مرہم تو رکھنا نہ آیا
زخم کھروچنا سیکھ رہا ہوں
جینےکے ہیں عجب تقاضے
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں
مدہوشی نے بہت ستایا
ہوش میں رہنا سیکھ رہا ہوں
برسوں گزرے پھر بھی ابھی تک
ماں سے بچھڑنا سیکھ رہا ہوں
ڈر کر زہر کے پیالے سے
سچ کو چھپانا سیکھ رہا ہوں
روتے روتے اوروں پر
خود پر ہنسنا سیکھ رہا ہوں
غم نے مجھ کو بہت ہے کھایا
اب غم کھانا سیکھ رہا ہوں
اس پر حیراں ہوتا ہوں
کرتب، کیاکیا سیکھ رہا ہوں
No comments:
Post a Comment