کبھی انجان سی راہوں پر تنہا سفر کرتے
کبھی اس زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں
ایک بوند پیاِسِ محبت کےلئے ترستے پھرتے
کبھی وقت اور حالات کے سنگین بھنور میں
اپنی ذات سے لڑتے پھرتے
تو کبھی خود میں ٹوٹتے
اور پھر سے بُنتے پھرتے
زندگی
جیسے ایک بساط کی مانند
الجھتی چلی گئی
بہت کچھ پاکر بہت کچھ کھونے کا غم
کبھی بے انتہا خوشی میں بھی
یہ آنکھیں رہی ہیں نم
نہ اندر کی یہ برسات تھمی
محسوس کرتا ہے دل آج بھی تیری کمی
تجھ پہ میری ذات کا ایک قرض باقی ہے
ہاں جاناں
آج بھی سینے میں
کہیں ایک درد باقی ہے
No comments:
Post a Comment