سنا ہے چاندنی راتوں میں اکثر
میں اپنے آپ میں ہوتی نہیں ہوں
کسی کی یاد آتی ہے مسلسل
میں جب سوتی ہوں تب سوتی نہیں ہوں
مجھے تنہا ہے غم سہنے کی عادت
کسی کے سامنے روتی نہیں ہوں
یہ داغ, ہجر ہے رہنے دو اس کو
میں ایسے داغ اب دھوتی نہیں ہوں
مری قسمت میں ہیں کانٹے ہی کانٹے
میں فصل, گل کبھی بوتی نہیں ہوں
وہ کہتی تھی کہ تم ہو گے سمندر
میں انور سیپ یا موتی نہیں ہوں
No comments:
Post a Comment