بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جزنام نہیں صورت عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
تو دیکھ کہ کیا حال ہےمیرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا حال ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بت آئینہ سیما مرے آگے
پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزار
کیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
No comments:
Post a Comment