کبھی تم کتابوں میں کُچلی ہوئی کوئی تتلی جو دیکھو
تو یہ جان لینا
مجھے آسمان اور زمیں نے کُچل کر تمھاری کتابوں میں
تتلی کی صورت بقا بخش دی
کبھی پھول ٹوٹا ہوا کوئی پاؤ
تو یہ جان لینا
مجھے میرے اندر نے خود توڑکر تیرے قدموں میں نقشِ وفا کر دیا ہے
کبھی کوئی ساگر اُمنڈتا جو دیکھو
تو یہ جان لینا
یہ میرے آنسو ہیں جو اب سمندر میں طوفاں بنے ہیں
کبھی پھول، تتلی، سمندر، کنارے
گزرتے ہوئے تیز قدموں کو تھامیں
تو یہ جان لینا
یہ میں ہوں جو تھک کر یہاں آ گیا ہوں
ہمارے لئے ایسے دن بھی لکھے تھے
کہ جن میں اَنا نے فنا کے سفر میں
کئی درد جھیلے
کئی روپ دھارے
کبھی پھول، تتلی سمندر کنارے
کبھی رنگ، خوشبو، اُجالا، ستارے
No comments:
Post a Comment