دکھوں کی شدتیں زخموں کی گہرائی مجھے دے دو
مسیحا تم سہی اذنِ مسیحائی مجھے دے دو
تم اپنی ذات میں خود انجمن ہو تم کو کیا غم ہے
میں تنہا ہوں یہ بزمِ ذوقِ تنہائی مجھے دے دو
تم اپنے دل کے دروازے مقفل شوق سے کر لو
بس اپنی ذات سے اذنِ شناسائی مجھے دے دو
تمہارے بعد ہر منظر مجھے بےرنگ لگتا ہے
یہ آنکھیں چھین لو یا اپنی بینائی مجھے دے دو
میں سانسوں میں سمو لوں گا تمہاری ہر امانت کو
یہ وحشت ناک سناٹے یہ تنہائی مجھے دے دو
میری شہرت تمہارے کام آ جائے تو حاضر ہے
تمہیں دنیا نے بخشی ہے جو تنہائی مجھے دے دو
میں شاعر ہوں میرے بےکیف بےتاثیر لفظوں کو
امر کر دو تم اپنے غم کی رعنائی مجھے دے دو
No comments:
Post a Comment