Wednesday 29 August 2012

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی



محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا

ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی 
وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا 

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا 

اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی 
کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دَم توڑدیا 

آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ 
آج پھر تاروں بھری رات نے دَم توڑدیا 

جن سے افسانۂ ہستی میں تسلسل تھا کبھی 
اُن محبّت کی روایات نے دم توڑدیا 

جھلملاتے ہوئے اشکوں کی لڑی ٹوٹ گئی 
جگمگاتی ہوئی برسات نے دم توڑ دیا 

ہائے آدابِ محبّت کے تقاضے ساغر 
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑدیا 

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets