سماعت پہ جمی چاپ
ہوا، بند مکان
گفتگو کرنے کے آسن میں رُکے سب اجسام
مُردہ لمحات کا اِک ڈھیر پہاڑ
اَبر کی قاش، اُٹھی موج کا ساکت اندام
برف لب، پلکوں پہ ٹانکے ہوئے موتی آنسو
اور سِلے کانوں میں آواز کی سوئیاں بے جان
یک بیک بولنے لگتے ہیں تمام
زندگی بننے میں ہو جاتی ہے پھر سے مصروف
وقت ہو جاتا ہے پھر خاک بسر، بے آرام
اِک پرندہ جسے اُڑتے چلے جانا ہے خدا جانے کہاں
اور میں
تنکوں کے بکھرے ہوئے بستر کی طرح
منتظر، لوٹ کے تم
پھر سے چلے آؤ کسی روز یہاں
پھر ہوں اِک بار معطّل
یہ زمین اور زماں
No comments:
Post a Comment