مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
ہجر کا خوف بے مطلب ، وصل کے خواب بے معنی
کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے
اُسے کیوں خامشی کہیے کہ جس میں بات رہتی ہے
یہ آنسو بے زُباں آنسو بھلا کیا بول سکتے ہیں
کہاں دل میں کسی کی یاد کے طوفاں اٹھتے ہیں
کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے
کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے
مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
مگر جب آج برسوں بعد میں نے اُس کو دیکھا ہے
کہ اُس کی جھیل آنکھوں میں ہجر کا خوف رہتا ہے
وصل کے خواب رہتے ہیں وہی برسات رہتی ہے
یہ عادت ہے کی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید
یہ لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے
اور اُس کی نرم پلکوں کے حسیں سائے بھی گیلے ہیں
اور اُس کی خامشی ایسی کہ جس میں بات رہتی ہے
مجھے اب وہ نہیں کہتی ، محبت کچھ نہیں ہوتی
کہ ہر دیوار پر اب وہ کسی کا نام لکھتی ہے
No comments:
Post a Comment