جنگل تھے تاریک کہیں، کہیں مٹی رَیت کے ٹیلے تھے
عشق کی راہ میں آنے والے پتھر بھی نوکیلے تھے
تیرے ہجر کے ناگ کا ڈسنا کچھ اتنا زہریلا تھا
میری آنکھ سے بہنے والے، آنسو نیلے نیلے تھے
سانسوں کی شطرنج بھی ہارے پھر بھی مِل نہ پائے وہ
اُن کے پیار میں حائل شاید رِیت، رواج، قبیلے تھے
تم ناحق ناراض ہوئے ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا، جس کے نین نَشیلے تھے
No comments:
Post a Comment