پوچھ رہا ہے کوئی مجھ سے
آب و ہوا اُن شہروں کی
قِصّے فُرصت کے لمحوں کے
باتیں آٹھوں پہروں کی
کوئی کہتا ہے ’’ کیا دیکھا‘‘
غیروں کی اِس بستی میں؟
موسم کیسے ہیں شہروں کے؟
لوگ ہیں کتنی پستی میں؟
ذکر کرو کچھ رنگ و بُو کا
کچھ پُھولوں، کچھ کلیوں کا
کچھ برسات کا نقشہ کھینچو
کچھ پردیس کی گلیوں کا
لوگ مِلے ہیں کیسے تم کو؟
کیا لہجوں میں نرمی ہے؟
کیا ان برف زدہ لوگوں میں
اب بھی پیار کی گرمی ہے؟
لیکن ایسی باتیں کہہ کر
میں خود سے شرمایا ہوں
میں تو اپنے سارے موسم
اپنے ساتھ ہی لایا ہوں
No comments:
Post a Comment