Saturday, 14 January 2012

کہاں کہاں سے مٹائے گا خوش گماں میرے








کہاں کہاں سے مٹائے گا خوش گماں میرے
ترے بدن سے تری روح تک، نشاں میرے


کہیں بھی جا کے بسا لے تو بھول کی بستی
محیط ہیں ترے، یادوں کے آسماں میرے


اگرچہ فاصلہ دو چند کر لیا تو نے
رواں دواں ہیں تری سمت کارواں میرے


میں جاؤں بھی تو کہاں ، چھوڑ کر تری گلیاں
تو کر گیا سبھی رستے دھواں دھواں میرے


عبور ہوتے نہیں ، روز طے تو کرتا ہوں 
یہ ہجر فاصلے، یہ بحرِ بے کراں میرے


ہوا کے بیڑے کسی اور سمت بہتے ہیں 
کھلے ہیں اور کسی سمت بادباں میرے


میں اپنے جذبوں کی شدت سے خوف کھاتا ہوں 
کہ دشمنوں سے ہیں بڑھ کر، یہ مہرباں میرے


میں خواب زار کی کرتا تو ہوں چمن بندی
اجاڑ دے نہ کوئی آ کے گلستاں میرے


شگوفے آ گئے پلکوں پہ درد کے آخرچھپا سکے نہ مرے راز، رازداں میرے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets