وہ دلبر ہیں تو گویا دلبری کرنی پڑے گی
انہیں کے نام دل کی ڈائری کرنی پڑے گی
وہ اُن کو جانتے ہیں اور اُن کے حال دل کو
سو ان کے دوستوں سے دوستی کرنی پڑے گی
ہمارے درمیاں یہ دُکھ ہی قدر مشترک ہیں
سو ہم کو اجتماعی خودکشی کرنی پڑے گی
بدن کو روح سے محروم کر ڈالا گیا ہے
بسر اس طور ہی اب زندگی کرنی پڑے گی
بلایا جائے کیسے اس شناسائے سخن کو [بپا اک بزمِ شعروشاعری کرنی پڑے گی
نگاہوں کے سفر میں تُو اگر دریا ہے مجھ کو
ادا نہ جان و دل کی تشنگی کرنی پڑے گی
No comments:
Post a Comment