یہ کیسا عشق میں ڈوبا ہوا کردار ہے صاحب
ابھی تک اس کی جھولی میں وہی پندار ہے صاحب
دَبک کر اتنے سارے غم یہاں خاموش بیٹھے ہیں
یہ دل ہے یا کسی صوفی کا اک دربار ہے صاحب
میں تیری شرط پہ سب جنگلوں کو پار کر آئی
بتا! اب میرے حصے کا کدِھر گلزار ہے صاحب
یہی محسوس ہوتا ہے بہت سے پچھلے برسوں سے
کہ آنے والا جو بھی ہے برس بیکار ہے صاحب
وہ مجھ ایسی، کہ میری زندگی چڑیا کے جیسی ہے
شجر کی شاخ پہ دونوں کا ہی گھر بار ہے صاحب
بہت سے راز سینے میں رہیں مضمر تو بہتر ہے
نہیں تو کیا ہے، رسوائی ہے، ہاہاکار ہے صاحب
کسی دن ہاتھ اس سے پھر ملانا ہو گا رخشندہ
کہ پھر سے دھڑکنوں کی سُست سی رفتار ہے صاحب
No comments:
Post a Comment