تیرے حرف و لب کا طلسم تھا، میری آب و تاب میں رہ گیا
وہ کسی گلاب کا جسم تھا، جو میری کتاب میں رہ گیا
میری بات بات میں روشنی، میرے حرف حرف میں دلکشی
تو میرا شریکِ وصال ِجاں، میری ہر کتاب میں رہ گیا
کوئی پھول کھل کے بکھر گیا، کوئی بات بن کے بگڑ گئی
نہ سوال کوئی لبوں پہ ہے، نہ گلہ جواب میں رہ گیا
دل ِخوش گماں تیری خیر ہو، تو ہے پھر یقیں کی صلیب پر
تجھے پھر کسی سے شکایتیں، تو اسی عذاب میں رہ گیا
تجھے کیا ملا دل ِمبتلا، نہ کوئی دعا نہ کہیں وفا
مگر ایک عرصۂِ رائیگاں، جو تیرے حساب میں رہ گیا
وہ جو میرا عہدِ جمال تھا، وہ جو میرا شہر ِخیال تھا
کہ اب اس کا ذکر ِکمال بھی، کہیں حرف و خواب میں رہ گیا
No comments:
Post a Comment