صدائیں گونجتی رہتی ہیں گلیوں میں
کوئی آواز دیتا ہے
پسِ دیوار
اِک بڑھیا
پرانے عاشقوں کے نام لیتی ہے
مگر احساس سے عاری
زمانے میں
پرانی اپسراؤں کی صدائیں کون سُنتا ہے
صدائیں گونجتی رہتی ہیں گلیوں میں
ملبہ
میں بچپن میں
سبھی دُکھ
گھر کی دیواروں پہ لکھ دینے کا عادی تھا
مگر پردیس میں آکر
میں اپنے گھر کی دیواروں پہ روشن
سب دُکھوں کو بھُول بیٹھا ہوں
مجھے ماں نے بتایا ہے
کہ اب کی بارشوں میں
گھر کی دیواریں بھی روئی ہیں
سو گھر جا کر
مجھے دیوار پر
لکھی ہوئی
تحریر کا ملبہ اُٹھا نا ہے
No comments:
Post a Comment