Thursday, 12 April 2012

پی نہ ملن کو آئے سانول



پی نہ ملن کو آئے سانول
من پنچھی کرلائے سانول

دل محتاط طبیعت والا
...بن پریتم پچھتاوے سانول

تیری آس پہ بیٹھے بیٹھے
برکھا بیت نہ جائے سانول

اندر بیٹھا ڈیرے ڈالے
گھڑی گھڑی بہکائے سانول

آگ لگا جائے اشکوں میں
پلکوں کو سلگائے سانول

بھیڑ سے سہا ہوا ہوں شاید
تنہائی بہلائے سانول

کون دلاسہ دے زخموں کو
کون انھیں سمجھائے سانول

غم آ جاتے ہیں رستے میں
دامن کو پھیلائے سانول

ہنستا رہنے والا فرحت
چھپ چھپ نیر بہائے سانول


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets