ہوا کے ساتھ ہوا کی امانتیں بھی گئیں
ترے کہے ہوئے لفظوں کی راکھ کیا چھیڑیں
ہمارے اپنے قلم کی صداقتیں بھی گئیں
جو آئے جی میں پکارو مجھے، مگر یوں ہے
کہ اس کے ساتھ ہی اسکی محبتیں بھی گئیں
عجیب موڑ پہ ٹھہرا ہے قافلہ دل کا
سکون ڈھونڈنے نکلے تھے وحشتیں بھی گئیں
یہ کیسی نیند میں ڈوبے ہیں آدمی امجد
کہ ہارتھک کے گھروں سے قیامتیں بھی گئیں
No comments:
Post a Comment