Friday, 6 April 2012

سفر ملال کا ہے اور چل رہی ہوں میں




سفر ملال کا ہے اور چل رہی ہوں میں
غبارِ شب کی اداسی میں ڈھل رہی ہوں میں
عجیب برف کی بارش بدن پہ اُتری ہے
کہ جس کی آگ میں چُپ چاپ جل رہی ہوں میں
پھر اک چراغ جلا شام کی حویلی میں
پھر ایک درد سے آخر سنبھل رہی ہوں میں
یہ رکھ رکھاءو اُسے جاننے نہیں دے گا
کہ اپنے آپ میں کیسے پگھل رہی ہوں میں
یہ عشق سچ سے جُدا کیسے ہو گیا جاناں؟
اب اس سوال سے باہر نکل رہی ہوں میں
بس ایک عشق مری ذات پہ صحیفہ ہو
مرے خدا پہ عقیدہ بدل رہی ہوں میں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets