سفر ملال کا ہے اور چل رہی ہوں میں
غبارِ شب کی اداسی میں ڈھل رہی ہوں میں
غبارِ شب کی اداسی میں ڈھل رہی ہوں میں
عجیب برف کی بارش بدن پہ اُتری ہے
کہ جس کی آگ میں چُپ چاپ جل رہی ہوں میں
کہ جس کی آگ میں چُپ چاپ جل رہی ہوں میں
پھر اک چراغ جلا شام کی حویلی میں
پھر ایک درد سے آخر سنبھل رہی ہوں میں
پھر ایک درد سے آخر سنبھل رہی ہوں میں
یہ رکھ رکھاءو اُسے جاننے نہیں دے گا
کہ اپنے آپ میں کیسے پگھل رہی ہوں میں
کہ اپنے آپ میں کیسے پگھل رہی ہوں میں
یہ عشق سچ سے جُدا کیسے ہو گیا جاناں؟
اب اس سوال سے باہر نکل رہی ہوں میں
اب اس سوال سے باہر نکل رہی ہوں میں
بس ایک عشق مری ذات پہ صحیفہ ہو
مرے خدا پہ عقیدہ بدل رہی ہوں میں
مرے خدا پہ عقیدہ بدل رہی ہوں میں
No comments:
Post a Comment