ڈَر شب کا وہاں کیوں نہ بھلا تیز بہت ہو
جِس گھر میں دِیا ایک، ہَوا تیز بہت ہو
صدیوں کے مُسافر بھی پَلٹ آئیں گے اِک روز
یہ شرط، کہ رفتارِ صَدا تیز بہت ہو
ہاتھ اُس نے میرے خُون میں تَر کر لیے آخر
خواہش تھی اُسے، رنگِ حِنا تیز بہت ہو
دُنیا کی ہوس، پِھر مجھے برفاب نہ کر دے
اے گرمئی احساسِ اَنا! تیز بہت ہو
سوُرج اُتر آیا ہے میرے سَر پہ کہ محسن
صحرا نے کہا ’’ آبلہ پا! تیز بہت ہو‘‘
No comments:
Post a Comment