صبح کو بزمِ ناز کا رنگ اُڑا ہوا ملا
پھول جلے ہوئے ملے دِیپ بجھا ہوا ملا
دل کا نصیب ہے اسےگرغمِ دوست مل سکے
ایسا نگیں بھلا کسے رَہ میں پڑا ہوا ملا
ٹوٹ کے گِر چکا تھا اور ہم نے چنی تھیں کِرچیاں
آج یہ آسمان پھر سر پہ تنا ہوا ملا
جب بھی فسانۂ فراق شمعِ خموش سے سنا
خوبئ اتفاق سے پہلے سنا ہوا ملا
شام کے ساتھ دُور تک چلتا ہوا وہ راستہ
آج تو اپنے پاؤں کے نیچے بچھا ہوا ملا
ہجر کدے میں رات کو روز کی طرح آج بھی
نیند بجھی بجھی ملی، خواب جلا ہوا ملا
کوئی اُٹھا تو دھوپ سا سارے افق پہ چھا گیا
اپنے ہی سائے سے کہیں کوئی ڈرا ہوا ملا
گھر میں اگر ہے کچھ کمی رامش و رنگ و نُور کی
خانۂ خواب دیکھئے کیسا سجا ہوا ملا
No comments:
Post a Comment