کبھی تقدیر گر میری
مجھے رستے میں مل جائے
کبھی بھولے سے ہی گَر وہ
مری بستی میں آجائے
مرے گھر کا پتہ پوچھے
کبھی مجھ سے کہے آکر
کہ میں تقدیر ہوں تیری
بتا کیا چاہئے تجھ کو؟
خوشی درکار ہے تجھ کو؟
ہنسی درکار ہے تجھ کو؟
وفا درکار ہے تجھ کو ؟
کسی بچھڑے ہوئے کا کوئی پتہ درکار ہے تجھ کو؟
بتا تقدیر کی ماری کہ کیا درکار ہے تجھ کو ؟
کبھی تقدیر گر پوچھے تو میں کچھ بھی نہ مانگوں گی
میں اے جانِ جہاں تقدیر سے تیرا نہ پوچھوں گی
نہ تیرا پیار اور چاہت
نہ جذبوں کی کوئی حدت
نہ ہونٹوں کی کوئی لرزش
نہ ہاتھوں کی کوئی جنبش
نہ خوشبو دار سا موسم
نہ زخموں کے لئے مرہم
نہ کوئی امید مانگوں گی
نہ اس سے عید مانگوں گی
نہ میں تیری محبت کی کوئی تجدید مانگوں گی
نہ اُس بھولے ہوئے وعدے کی اب تائید مانگوں گی
بس اے جانِ جہاں تقدیر سے میں اتنا پوچھوں گی
رفاقت اور محبت کا
ریاضت اور عبادت کا
یہی انجام ہوتا ہے ؟
مسلسل ایک سجدے کا یہی انعام ہوتا ہے ؟
کسی کے نام پر کوئی اس طرح بے نام ہوتا ہے؟
مثالِ شام ہوتا ہے؟
No comments:
Post a Comment