اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا
میرے یقین کا ہر اک سامان لے گیا
کچھ خواب تھے، کہ پھول تھے، تعبیر تھی یہاں
جاتے ہوئے وہ اپنے سب پیمان لے گیا
یادوں کے پھول جس میں سجاتی رہی تھی میں
ہاتھوں سے میرے کون یہ گلدان لے گیا
تنکوں کا آشیاں جو بنایا تھا شوق سے
وہ بھی اڑا کے ساتھ میں طوفان لے گیا
وعدہ بھی ساتھ لے گیا جاتے ہوئے وہ آج
ملنے کا آخری تھا جو امکان لے گیا
No comments:
Post a Comment