ترےجنگل کی صندل ہوگئی ہوں
سلگنے سے مکمل ہوگئی ہوں
ذرا پیاسے لبوں کی اے اداسی
مجھے تو دیکھ چھاگل ہوگئی ہوں
بدن نے اوڑھ لی ہےشال اس کی
ملائم، نرم، مخمل ہوگئی ہوں
دھنسی جاتی ہے مجھ میں زندگانی
میں اک چشمہ تھی دلدل ہوگئی ہوں
کسی کے عکس میں کھوئی ہوں اتنی
خود آئینے سے اوجھل ہوگئی ہوں
رکھا ہے چاند اونچائی پہ اتنا
تمنائوں سے پاگل ہوگئی ہوں
کرشمہ اک تعلق کا ہے نیناں
کہ میں صحرا سے جل تھل ہوگئی ہوں
No comments:
Post a Comment