اداس راتوں میں تیز کافی کی تلخیوں میں
وہ کچھ زیادہ ہی یاد آتا ہےسردیوں میں
مجھے اجازت نہیں ہے اس کو پکارنے کی
جو گونجتا ہے لہو میں سینے کی دھڑکنوں میں
وہ بچپنا جو اداس راہوں میں کھو گیا
میں ڈھو نڈتا ہوں اسے تمہاری شرارتوں میں
اسے دلاسے تو دے رہا ہو مگر یہ سچ ہے
کہیں کوئی خوف بڑھ رہا ہت تسلیوں میں
تم اپنی پوروں سے کیا لکھ گے تھے جاناں
چراغ روشن ہے اب بھی میری ہتھیلیوں میں
جو تو نہیں ہے تو یہ مکمل نہ ہو سکیں گی
تیری یہی اہمیت ہے میری کہا نیوں میں
مجھے یقیں ہےوہ تھام لے گا بھرم رکھے گا
یہ مان ہے تو دیے جلاے ہے اندھیوں میں
ہر اک موسم میں روشنی سی بکھرتے ہے
تمہارے غم کے چراغ میری اداسیوں میں
No comments:
Post a Comment