دل دیس تمہارا مسکن تھا
اس میں تو تمہارا جیون تھا
اس میں تو تمہاری دھڑکن تھی
دل ہی تو تمہارا گلشن تھا
اس میں تو تمہاری خوشیاں تھیں
اک دل کا دل سے بندھن تھا
اے جان بتاؤ پھر تم نے
دل دیس کو کیوں پامال کیا ؟
کیوں اس کو یوں بے حال کیا ؟
اس دل کو اجاڑا کیوں تم نے؟
اس طرح بگاڑا کیوں تم نے؟
دل دیس میں تم ہی رہتے تھے
دل دیس میں تم ہی بستے تھے
اس کے دیوار و در کو بس
تم تنہا دیکھا کرتے تھے
اس کی اونچی سی مسند پر
بس تم ہی بیٹھا کرتے تھے
دل مندر میں تو تمہاری ہی
ہرہر پل پوجا ہوتی تھی
دل دیس تمہارا مسکن تھا
اس دیس کی بنجر مٹی میں
تم نے ہی پھول اگانے تھے
اس کے ویران سے آنگن میں
خوشیوں کے گیت بھی گانے تھے
اس کی اندھی راتوں میں تمہیں
امید کے دیپ جلانے تھے
کچھ رنگ فضا میں پھیلا کر
ان سے کچھ رنگ بنانے تھے
لیکن میں حیراں ہوں جاناں
دل دیس تمہارا مسکن تھا
دل دیس تمہارا جیون تھا
اس دیس کو تم کیوں چھوڑ گئے؟
دل دیس کی راہوں سے آخر
رُخ اپنا کیونکر موڑ گئے؟
سب دیپ بجھا کر چلے گئے
سب خواب جلا کر چلے گئے
دل دیس جو روشن روشن تھا
یہ آج تلک بس ویراں ہے
اک آنکھ یہاں موجود ہے پر
یہ آنکھ ابھی تک حیراں ہے
دل دیس کی اونچی سی مسند
اے جان ابھی تک خالی ہے
اور مندر میں موجود وہی
اک پوجا کرنے والی ہے
اس کا دامن بھی خالی ہے
No comments:
Post a Comment