مجھ کو رہے گی یاد ملاقات آخری
ہونٹوں پہ رہ گئی تھی کوئی بات آخری
آنکھوں کے دشت میں تھے نگینے سجے ہوئے
چاہت کی جس طرح سے ہو سوغات آخری
ٹھہرا ہوا سا د ن تھا اور
گہری اداس شام
دل کے نگر میں چھائی تھی
جذبوں کی وہ نمی
بھولوں گی کس طرح سے میں
لمحات آخری
وہ ملاقات آخری
رک رک کے مڑ کے دیکھتا تھا بے نوا کوئی
اور دوڑتی تھی سائے کے پیچھے میں بے خطر
اک شام سے تھا رات کا تنہا کٹھن سفر
مرجھا گیا چمن میں ہر اک پھول ہر شجر
آہوں کا سسکیوں کا سمندر تھا موجزن
اس کا خیال روح کے اندر تھا موجزن
ہو گی نہ اب کبھی بھی وہ برسات آخری
مجھ کو رہے گی یاد ملاقات آخری
کیسا وہ آشنا تھا اور کیسا تھا اجنبی
اپنے لئے یہ دکھ بھی بہت ہی عجیب تھا
گو فاصلے بہت تھے مگر وہ قریب تھا
شکوہ مرے لبوں پہ تو آیا نہ تھا کبھی
وہ کہہ رہا تھا ہجر ہی اپنا نصیب ہے
بھولوں گی کس طرح سے میں کلمات آخری
وہ ملاقات آخری
پھر اس کے بعد روح میں پھیلا وہ انتشار
جیسے پکارتے ہوں وہ جذبے سے بے قرار
دشتِ طلب میں جیسے کوئی روئے زار زار
پھولوں کو چھوڑ کر لئے کانٹوں کے ہم نے ہار
دن رات کا سفر بھی کٹے ایک آس پر
ممکن ہے نام لے وہ مرا پھر سے بار بار
دل بے قرار ہو کوئی دھڑکن بھی لے پکار
لیکن میں جانتی ہو ں ہر اک موج رنگ میں
اس دن چھلک رہے تھے وہ جذبات آخری
اب توبس اک امید ہے اک آس ہے مجھے
ممکن ہے اس طرح سے بھی ا ک روز ہو کبھی
خوابوں کے اس نگر میں یونہی لوٹ آئے و ہ
دل پر دیں دستکیں اگر جذبے وہی کبھی
چھا جائے پھر سے شام کبھی سرد سی وہی
دل کی خلش تو اب نہ مٹے گی تمام عمر
آنے پہ اس کے ہوں گی رسومات آخری
میرے کٹیں گے ایسے اب لمحات آخری
بھولوں گی اس طرح سے ملاقات آخری
No comments:
Post a Comment