!وہ کہتا
کیا رکھا ہے یادوں کے جھروکوں میں
تلخیاں ہی تلخیاں ہیں ماضی کے دریچوں میں
چلو چھوڑیں نادانیاں عقل سے کام لیں
آؤ ! زمانے کا ساتھ دیں ، خوشی کا ہاتھ تھام لیں
آؤ !
دکھ کے اندھیروں سے پہلے
اپنی سحر سویرا کر لیں
ہے جہاں جہاں روشنی
آنکھیں خیرہ کر لیں
یہ درد دل اور وفاؤں کی باتیں
بہت پرانی باتیں ہیں
کیا رکھا ہے ان باتوں میں
بس یہ درد کی سوغاتیں ہیں
آؤ ہنستے ہنستے بچھڑ جائیں
مری جاں میرا کہنا مان لو
اب زہرِ جدائی پینا ہے
ذہن و دل سے جان لو
وفا کی ڈگر پہ چلتے چلتے تم بھی تھک ہی جاؤ گے
صدیوں پرانی ریت پریت کب تک تم نبھاؤ گی
جب میں ہی نہیں ہوں ساتھ تیرے
پھر کس کو تم بلاؤ گی
کیسی وفا ہے جس کو تم آزماؤ گی
تھک ہار کے مری جاں
تم بھی زمانے کی ہو جاؤ گی
دیتے دیتے یونہی صدائیں
آخرلَوٹ جاؤ گی
اک عمر گزری ، صدیاں بیتیں
مگر آج بھی یہی سوچتی ہوں میں
آخرکب وہ دن آئے گا
اُس کی طرح ، میرا دل بھی
عقل کو اپنائے گا
اس کی باتوں کو مان کر
اُسی کو بھول جائے گا
ہاں اسی کو بھول جائے گا
No comments:
Post a Comment