تری رحمتوں کے دیار میں ترے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سرد نہیں ہوئی ابھی اک الاؤ بجھا نہیں
مری بزم دل تو اجڑ چکی مرا فرش جاں تو سمٹ چکا
سبھی جا چکے مرے ہمنشیں مگر ایک شخص گیا نہیں
درد بام سب نے سجا لیے سبھی روشنی میں نہا لیے
مری انگلیاں بھی جھلس گئیں مگر اک چراغ جلا نہیں
غم زندگی! تری راہ میں شب آرزو ! تری چاہ میں
جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں
جو دل ونظر کا سرور تھا مرے پاس رہ کے بھی دور تھا
وہی اک گلاب امید کا مری شاخ جاں پہ کھلا نہیں
پس کارواں سر رہگذر میں شکستہ پا ھوں تو اس لیے
کہ قدم تو سب سے ملا لیے مرا دل کسی سے ملا نہیں
مرا ہم سفر جو عجیب ھےتو عجیب تر ہوں میںآپ بھی
مجھے منزلوں کی خبر نہیں اسے راستوں کا پتا نہیں
No comments:
Post a Comment