میری آنکھوں کے سمندر میں جلن کیسی ھے
آج پھر دل کو تڑپنے کی لگن کیسی ھے
اب کسی چھت پہ چراغوں کی قطاریں بھی نہیں
اب ترے شہر کی گلیوں میں گھٹن کیسی ھے
برف کے روپ میں ڈھل جائیں گےسارے رشتے
مجھ سے پوچھو کہ محبت کی اگن کیسی ھے
میں تیرے وصل کی خواہش کو نہ مرنے دوں گا
موسمِ ہجر کے لہجے میں تھکن کیسی ہے
ریگزاروں میں جو بانٹتی رہی کانٹوں کی ردا
اُس کی مجبور سی آنکھوں میں کرن کیسی ہے
مجھے معصوم سی پاگل لڑکی پہ ترس آتا ہے
اُس کو دیکھو تو محبت میں مگن کیسی ہے
No comments:
Post a Comment