کیسی بھلا یہ برہمی یہ پیچ و تاب ھے
جیسا ترا سوال ھے ویسا مرا جواب ھے
تو ھے فلک تو میں زمیں یہ تو نہیں کہ میں نہیں
ذراہ خاک میں بھی ہوں تو اگر آفتاب ھے
گھر سے چلی ھے خوبرو ایک ہجوم چار سو
رنگ ھے یا سزا کوئی حسن ھے یا عذاب ھے
ملتے رہیں تو زندگی گنتی کی چار ساعتیں
بچھڑیں تو ایک ایک پل عرصہ بے حساب ھے
عمر دراز ہجر سے وصل کا ایک پل بہت
اتنی گھڑی تو مل مجھے جتنی گھڑی حباب ھے
پھول وہی چمن وہی سارا ہی بانکپن وہی
ایک ہی شاخ ہر کوئی کانٹا کوئی گلاب ھے
ایک سا ھے مقابلہ دونوں میں کوئی کم نہیں
جیسی حسین آنکھ ھے ویسا حسین خواب ھے
دنیا میں کون کون ھے یہ تو ذرا بتایئے
سارے جہاں کے لب پہ ھے دنیا بڑی خراب ھے
شاخ گلاب پر عدیم لگتے ھیں دل کھلے ہوئے
صحن بدن میں دل عدیم لگتا ھے اک گلاب ھے
اشکوں کی اک طرف عدیم ڈوبی ہوئی ھے چشم تر
اشکوں کی دوسری طرف ہر کوئی زیر آب ھے
No comments:
Post a Comment