کتنی بدل چکی ہے رت ، جذبے بھی وہ نہیں رہے
دل پہ ترے فراق کے صدمے بھی وہ نہیں رہے

محفلِ شب میں گفتگو اب کے ہوئی تو یہ کھلا
باتیں بھی وہ نہیں رہیں لہجے بھی وہ نہیں رہے

حلیئے بدل کے رکھ دئیے جیسے شبِ فراق نے
آنکھیں بھی وہ نہیں رہیں ، چہرے بھی وہ نہیں رہے

اس کا مہِ جمال بھی گویا غروب ہو چلا
اپنے
وفور شوق کے چرچے بھی وہ نہیں رہے

ہوش و خرد گنوا چکے ، خود سے بھی دور جا چکے
لوگ جو تیرے تھے کبھی اپنے بھی وہ نہیں رہے

یہ بھی ہوا کہ تیرے بعد ، شوق سفر نہیں رہا
جن پہ بچھے ہوئے تھے دل ، رستے بھی وہ نہیں رہے