Wednesday, 19 December 2012

بچھڑ کے پھر نہ مِلا، ہمسفر وہ ایسا تھا



مثالِ مَوجِ ہوا دَربدر وہ ایسا تھا
بچھڑ کے پھر نہ مِلا، ہمسفر وہ ایسا تھا

خُود اپنے سر لیا الزامِ بے وفائی تک
کہا نہ کچھ بھی اُسے، معتبر وہ ایساتھا

اُسے بسائے ہوئے تھی بَلا کی ویرانی
دیارِ ہجر میں آباد گھر وہ اَیسا تھا

کہ جیسے چاند مُسافت سے ماند پڑ جائے
پسِ غلافِ غبارِ سَفر وہ ایسا تھا

نہ دوشِ اہلِ حَکَم پر نہ زیرِ تاجِ شہی
سِناں کی نوک پہ جچتا تھا، سَر وہ ایسا تھا

بس ایک خواب نے نیندیں نچوڑ لیں اپنی
سَما گیا میری نَس نَس میں، ڈر وہ ایسا تھا

لہُو لہُو میری آنکھیں، ہیں تار تار قبا
کہ حادثہ ہی میری جاں مگر وہ اَیسا تھا

زمیں پہ اُس کے کَٹے بازوؤں کا سایہ ہے
عدُو کے سامنے سینہ سِپر وہ ایسا تھا

اُس کا کام تھا زخموں کی پَرورش "محسن"
اُسی کے نام دُعا، چارہ گر وہ ایسا تھا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets