دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا
قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہُوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں
بدن کو ناؤ، لہو کو چناب کردے گا
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہارجاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا، اور لاجواب کردے گا
اَنا پرست ہے اِتنا کہ بات سے پہلے
وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کردے گا
سکوتِ شہرِ سخن میں وہ پُھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کردے گا
اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کردے گا
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی ا پنی
تُمھاری یاد کے نام اِنتساب کر دے گا
No comments:
Post a Comment