Sunday, 16 December 2012

اثاثہ اس کے کمرے کا ہیں کچھ مغموم آوازیں


مگن کس دھن میں اپنے آپ کو دن رات رکھتا ہے
نجانے آج کل وہ کیسے معمولات رکھتا ہے

اثاثہ اس کے کمرے کا ہیں کچھ مغموم آوازیں
درازوں میں مقفل ہجر کے نغمات رکھتا ہے

ہماری گفتگو کس روز کس منزل پہ پہنچی تھی
بلا کا حافظہ ہے یاد وہ ہر بات رکھتا ہے

اگر نالاں ہوں میں اس سے تو وہ بھی خوش نہیں مجھ سے
مرے جیسے ہی وہ میرے لیے جذبات رکھتا ہے

بہت گہرا ہے ‘اس کی ظاہری حالت پہ مت جانا
وہ سینے میں پہاڑوں سے بڑے صدمات رکھتا ہے

اسے کیا چاند سے بھی کوئی دلچسپی نہیں
وہ اپنی کھڑکیوں کو بند کیوں دن رات رکھتا ہے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets