Monday, 24 December 2012

اُسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے


اُسے کہنا دسمبر لوٹ آیا ہے
ہوائیں سرد ہیں
اور وادیاں بھی دُھند میں گُم ہیں
پہاڑوں نے برف کی شال
پھر سے اُوڑھ رکھی ہے
سبھی راستے تمہاری یاد میں
پُر نم سے لگتے ہیں
جنہیں شرفِ مُسافت تھ
وہ سارے کارڈز، وہ پرفیوم، وہ چھوٹی سی ڈائری
وہ ٹیرس
وہ چائے جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
تمہاری یاد لاتی ہیں
تمہیں واپس بُلاتی ہیں
اُسے کہنا کہ دیکھو یُوں ستاؤ نا
دسمبر لوٹ آیا ہے
سُنو تم بھی لوٹ آؤ 
نا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets