وہ خواب دریچہ تو کسی پرنہیں کُھلتا
کُھل جائے جو بالفرض تو منظر نہیں کُھلتا
ہر آنکھ نہیں ہوتی سزاوارِ تماشا
ہر آئینے پر حُسن کا جوہر نہیں کُھلتا
محسوس تو کرتا ہوں تیرے لمس کو لیکن
کیا چیز ہے اس لمس کے اندر،نہیں کُھلتا
کُھل جاتے ہیں اسرارِ ازل بھی میرے آگے
وہ شخص مگر ذرّہ برابر نہیں کُھلتا
بس ایک ہیولٰی سا نظر آتا ہے سبکو
میں کون ہوں، میں کیا ہوں ، کسی پر نہیں کُھلتا
No comments:
Post a Comment