وہ سلسلے وہ شوق وہ نسبت نہیں رہی
اب زندگی میں ہجر کی وحشت نہیں رہی
ٹوٹا ہے جب سے اسکی مسیحائی کا طلسم
دل کو کسی مسیحا کی حاجت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ کوئی شناسا نہیں رہا
پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی
پھر یوں ہوا کہ ہو گیا مصروف وہ بہت
اور ہم کو یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی
اب کیا کسی کو چاہیں کہ ہم کو تو ان دنوں
خود اپنے آپ سے بھی محبت نہیں رہی
No comments:
Post a Comment