نجانے آج یہ کس کا خیال آیا ہے
خوشی کا رنگ لئے ہر ملال آیا ہے
وہ ایک شخص کہ حاصل نہ تھا جو خود کو بھی
مٹا کسی پہ تو کیسا بحال آیا ہے
زباں پہ حرفِ طلب بھی نہیں کوئی پھر بھی
نگاہِ دوست میں رنگِ جلال آیا ہے
کیا نہ ذکر بھی جس کا تمام عمر کبھی
ہمارے کام بہت وہ ملال آیا ہے
نہیں ہے تم سے کوئی دوستی بھی اب تو مگر
قدم قدم پہ یہ کیسا وبال آیا ہے
No comments:
Post a Comment