Thursday 28 February 2013

لُٹ چکے شہر آشنائی کے



بھول جائیں تو آج بہتر ہے
سِلسلے قرب کے جدائی کے
بُجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں
لُٹ چکے شہر آشنائی کے

رائیگاں ساعتوں سے کیا لینا
زخم ہوں پھول ہوں ستارے ہوں
موسموں کا حساب کیا رکھنا
جس نے جیسے بھی دن گذارے ہوں

زندگی سے شکایتیں کیسی
اب نہیں ہیں اگر گِلے تھے کبھی
بُھول جائیں کہ جو ہُوا سو ہُوا
بُھول جائیں کہ ہم ملے تھے کبھی

اکثر اوقات چاہنے پر بھی
فاصلوں میں کمی نہیں ہوتی
بعض اوقات جانے والوں کی
واپسی سے خوشی نہیں ہوتی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets