کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیراخیال بھی
دل کو خوشی کےساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی

بات وہ آدھی رات کی،رات وہ پورےچاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ تیرا جمال بھی

سب سےنظر بچا کے وہ مجھ کو ایسےدیکھتے
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ وسال بھی

دل تو چمک سکےگا کیا پھر بھی تراش کےدیکھ لو
شیشہ گراں شہرکے ہاتھ کا یہ کمال بھی

اس کو نہ پاسکے تھے جب دل کا عجب حال تھا
اب جو پلٹ کےدیکھئے بات تھی کچھ محال بھی

میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی

اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنےغموں کاحال بھی

گاہ قریب شاہ رگ ،گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات،ہجر بھی تھا وصال بھی

اس کے ہی بازؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کےاورجال بھی

شام کی ناسمجھ ہوا پوچھ رہی تھی اک پتہ
موج ہوائے کوئے یار ‘ کچھ تو میرا خیال بھی