محبت ایک دِیمک ہے
جو کھا جاتی ہے سب کُچھ یُوں
کہ جیسے شبِ سِیہ کوئی
گناہوں کو نِگل جائے
یا جُوں دُنیا کے اندھے لوگ
دُنیا کو ڈبوتے ہیں
دُکھوں کا بیج بوتے ہیں
محبت ایک دِیمک ہے
کہ جس دل میں اُتر جائے
اُسے تو خار دیتی ہے
کسی صحرا میں لے جا کر
پیاسا مار دیتی ہے
خبر اِس کی نہیں ہوتی
کہ کب یہ گھیر لے کِس کو
اِسے نہ زندگی سمجھو
سفر دُشوار ہے اِس کا
سرابِ زندگی سمجھو
محبت ایک دِیمک ہے
مُجھے بھی یہ لگی تھی جب
اِسے دل میں بسایا تھا
حیاتِ جاوِداں سمجھا
اِسے اپنا بنایا تھا
کہ اب تو یُوں یہ جیتی ہے
مجھے مُردہ بنا کر بس
جِگر کا خُون پیتی ہے
جِگر کا خُون پیتی ہے
No comments:
Post a Comment