اپنے بستر پہ بہت دیر سے میں نیم دراز
سوچتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں پر ہوگا
...میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ وبُو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا
اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہوگا!؟
آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہوگا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر
خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہوگا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہوگا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہوگا
راہداری میں، ہرے لان میں ،پُھولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہوگا
نام بُھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہوگا
بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بُھولا ہوگا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا
جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہوگا
کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہوگی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہوگا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پاکر
دوستوں کو بھی کسی عُذر سے روکا ہوگا
یاد کرکے مجھے، نَم ہوگئی ہوںگی پلکیں
’’آنکھ میں پڑگیا کچھ‘‘ کہہ کے یہ ٹالا ہوگا
اور گھبراکے کتابوں میں جو لی ہوگئی پناہ
ہر سطر میں مرا چہرہ اُبھر آیا ہوگا
جب ملی ہوئی اسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا
سوچ کہ یہ، کہ بہل جائے پریشانی دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا!
اتفاقاً مجھے اُس شام مری دوست ملی
مَیں نے پُوچھا کہ سنو۔آئے تھے وہ۔کیسے تھے؟
مُجھ کو پُوچھا تھا؟مُجھے ڈُھونڈا تھا چاروں جانب؟
اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنسی دی
اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے
کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن
اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا
...میں یہاں ہوں مگر اُس کوچہ رنگ وبُو میں
روز کی طرح سے وہ آج بھی آیا ہوگا
اور جب اُس نے وہاں مُجھ کو نہ پایا ہوگا!؟
آپ کو عِلم ہے، وہ آج نہیں آئی ہیں؟
میری ہر دوست سے اُس نے یہی پُوچھا ہوگا
کیوں نہیں آئی وہ کیا بات ہُوئی ہے آخر
خُود سے اِس بات پہ سو بار وہ اُلجھا ہوگا
کل وہ آئے گی تو میں اُس سے نہیں بولوں گا
آپ ہی آپ کئی بار وہ رُوٹھا ہوگا
وہ نہیں ہے تو بلندی کا سفر کتنا کٹھن
سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے اُس نے یہ سوچا ہوگا
راہداری میں، ہرے لان میں ،پُھولوں کے قریب
اُس نے ہر سمت مُجھے آن کے ڈھونڈا ہوگا
نام بُھولے سے جو میرا کہیں آیا ہوگا
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگا
ایک جملے کو کئی بار سُنایا ہوگا
بات کرتے ہُوئے سو بار وہ بُھولا ہوگا
یہ جو لڑکی نئی آئی ہے،کہیں وہ تو نہیں
اُس نے ہر چہرہ یہی سوچ کے دیکھا ہوگا
جانِ محفل ہے، مگر آج، فقط میرے بغیر
ہائے کس درجہ وہی بزم میں تنہا ہوگا
کبھی سناٹوں سے وحشت جو ہُوئی ہوگی اُسے
اُس نے بے ساختہ پھر مُجھ کو پُکارا ہوگا
چلتے چلتے کوئی مانوس سی آہٹ پاکر
دوستوں کو بھی کسی عُذر سے روکا ہوگا
یاد کرکے مجھے، نَم ہوگئی ہوںگی پلکیں
’’آنکھ میں پڑگیا کچھ‘‘ کہہ کے یہ ٹالا ہوگا
اور گھبراکے کتابوں میں جو لی ہوگئی پناہ
ہر سطر میں مرا چہرہ اُبھر آیا ہوگا
جب ملی ہوئی اسے میری علالت کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما ہوگا
سوچ کہ یہ، کہ بہل جائے پریشانی دل
یونہی بے وجہ کسی شخص کو روکا ہوگا!
اتفاقاً مجھے اُس شام مری دوست ملی
مَیں نے پُوچھا کہ سنو۔آئے تھے وہ۔کیسے تھے؟
مُجھ کو پُوچھا تھا؟مُجھے ڈُھونڈا تھا چاروں جانب؟
اُس نے اِک لمحے کو دیکھا مجھے اور پھر ہنسی دی
اس ہنسی میں تو وہ تلخی تھی کہ اس سے آگے
کیا کہا اُس نے ۔۔ مُجھے یاد نہیں ہے لیکن
اِتنا معلوم ہے ،خوابوں کا بھرم ٹُوٹ گیا
No comments:
Post a Comment