Friday, 21 October 2011

کہو تو لوٹ جاتے ہیں


کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ابھی تو بات لمحوں تک ہے
سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو بات لمحوں تک ہے
سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں تک ہے بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اور جاتے ہیں
ابھی کاجل کی ڈوری سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشک کستوری غزالوں تک نہیں آئی
ابھی روداد بے عنواں
ہمارے درمیاں ہے، دنیا والوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
مبادا نار ہو جائے یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
یہ رستہ پیار کا رستہ
رسن کا دار کا رستہ بہت د شوار ہے جاناں
کہ اس رستے کا ہر ذرہ بھی اک کہسار ہے جاناں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
میرے بارے نہ کچھ سوچو، مجھے طے کرنا آتا ہے
رسن کا دار کا رستہ
یہ آسیبوں بھرا رستہ، یہ اندھی غار کا رستہ
تمہارا نرم و نازک ہاتھ ہو اگر میرے ہاتھوں میں
تو میں سمجھوں کہ جیسے دو جہاں ہیں میری مٹھی میں
تمہارا قرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں
یہ اندھے اور کالے راستے، پر نور ہو جائیں
تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے
تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے
اٹھا لو اپنا سایہ تو میری اوقات ہی کیا ہے
میرے بارے نہ کچھ سوچو
تم اپنی بات بتلاؤ
کہو تو چلتے رہتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets