چارسُو ھے خیال کی خُوشبُو
وقت کے سُر کی تال کی خُوشبُو
جیسے تھامے ھُوئے ھو قوسِ قزح
نُقطۂِ اِتّصال کی خُوشبُو
دیکھنا تھا گراں کہ پھیلی تھی
ھر طرف دیکھ بھال کی خُوشبُو
آتی رھتی ھے آج بھی اکثر
زخم سے اندمال کی خُوشبُو
پاس آیا جو تُو تو آئی مُجھے
اِک انوکھے ملال کی خُوشبُو
باغ میں ساتھ ساتھ چلتی ھے
سبزۂِ پائمال کی خُوشبُو
اُس گلی میں گیا تو لوٹ آئی
وصل کے ماہ و سال کی خُوشبُو
بابِ امسال کھولا ھی تھا ابھی
آگئی پِچھلے سال کی خُوشبُو
چارسُو کوئی بھی نہیں لیکِن
رھتی ھے خدّ و خال کی خُوشبُو
مَیں رھا راستے پہ لیکِن پھِر
آ گئی احتمال کی خُوشبُو
بھر گئی رات میرا جام نوید
ایک خالی خیال کی خُوشبُو
No comments:
Post a Comment