ڈھلتے ڈھلتے بخت کسی کا
ایسے ڈھلا کہ تیرہ شبی نے گھیر لیا
تاج کسی کے سر کا کسی کے قدموں میں ہے آن گرا
راج سنگھاسن کس کا تھا سوچو،
کس کو ملا؟
پلکوں پر جو خواب جگا وہ،
تھکن بہت گہری آنکھوں میں چھوڑ گیا
ذات حصار پہ گرد جمی اور آیئنہ بھی دھندلا سا گیا
لیکن پھر بھی،
آج تمہارا فون سنا تو یوں مجھ کو محسوس ہوا
دھند پگھلنے والی ہے
No comments:
Post a Comment